EN हिंदी
تجھے کس طرح چھڑاؤں خلش غم نہاں سے | شیح شیری
tujhe kis tarah chhuDaun KHalish-e-gham-e-nihan se

غزل

تجھے کس طرح چھڑاؤں خلش غم نہاں سے

فضا جالندھری

;

تجھے کس طرح چھڑاؤں خلش غم نہاں سے
دل بے قرار لاؤں انہیں ڈھونڈ کر کہاں سے

وہ بہار کاش آئے وہ چلے ہوائے دل کش
کہ قفس پہ پھول برسیں مری شاخ آشیاں سے

کبھی قافلے سے آگے کبھی قافلے سے پیچھے
نہ میں کارواں میں شامل نہ جدا ہوں کارواں سے

مرے بعد کی بہاریں مری یادگار ہوں گی
کہ کھلیں گے پھول اکثر مری خاک رائیگاں سے

ابھی مسکرا رہی تھیں مری آرزو کی کلیاں
مجھے لے چلا مقدر سوئے دام آشیاں سے

جو جبیں میں تھا امانت مرا شوق جبہ سائی
وہ لپٹ کے رہ گیا ہے ترے سنگ آستاں سے

ملی لمحہ بھر بھی فرصت نہ فضاؔئے غمزدہ کو
وہ برس رہے ہیں فتنے شب و روز آسماں سے