EN हिंदी
تجھے کیسے علم نہ ہو سکا بڑی دور تک یہ خبر گئی | شیح شیری
tujhe kaise ilm na ho saka baDi dur tak ye KHabar gai

غزل

تجھے کیسے علم نہ ہو سکا بڑی دور تک یہ خبر گئی

ممتاز نسیم

;

تجھے کیسے علم نہ ہو سکا بڑی دور تک یہ خبر گئی
ترے شہر ہی کی یہ شاعرہ ترے انتظار میں مر گئی

کوئی باتیں تھیں کوئی تھا سبب جو میں وعدہ کر کے مکر گئی
ترے پیار پر تو یقین تھا میں خود اپنے آپ سے ڈر گئی

وہ ترے مزاج کی بات تھی یہ مرے مزاج کی بات ہے
تو مری نظر سے نہ گر سکا میں تری نظر سے اتر گئی

ہے خدا گواہ ترے بنا مری زندگی تو نہ کٹ سکی
مجھے یہ بتا کہ مرے بنا تری عمر کیسے گزر گئی

وہ سفر کو اپنے تمام کر، گئی رات آئیں گے لوٹ کر
یہ نسیمؔ میں نے سنی خبر تو میں شام ہی سے سنور گئی