تجھ تیغ کی نگہ سے مرا کٹ گیا ہے دل
بھیتر سینے کے ٹکڑے ہو کر پھٹ گیا ہے دل
جب سے جمال تیرا میں دیکھا ہے اے صنم
تب سے سبھی طرف سے مرا ہٹ گیا ہے دل
انداز ناز قہر ہے اس کے نہ میں کہوں
پر خال و خط میں جا کے ترے بٹ گیا ہے دل
آگے کو بڑھ سکے ہے نہ پیچھے کو ہٹ سکے
یاں تک ترے خیال میں اب ڈٹ گیا ہے دل
ذرّا سے دیکھتے ہی یہ بدلی نظر تری
من میں چھٹنکی سیر پیچھے گھٹ گیا ہے دل
ہوتا ہے شب کو جا کے ہم آغوش غیر سے
یہ بات سن کے یار نپٹ چھٹ گیا ہے دل
جیسا ہے سبز خط ترا اور شوخ چشم
ان دونوں بیچ آ کے مرا لٹ گیا ہے دل
غزل
تجھ تیغ کی نگہ سے مرا کٹ گیا ہے دل
نین سکھ