EN हिंदी
تجھ سے شکوہ نہ کوئی رنج ہے تنہائی کا | شیح شیری
tujhse shikwa na koi ranj hai tanhai ka

غزل

تجھ سے شکوہ نہ کوئی رنج ہے تنہائی کا

مہتاب حیدر نقوی

;

تجھ سے شکوہ نہ کوئی رنج ہے تنہائی کا
تھا مجھے شوق بہت انجمن آرائی کا

کچھ تو آشوب ہوا اور ہوس کی ہے شکار
اور کچھ کام بڑھا ہے مری بینائی کا

آئی پھر نافۂ امروز سے خوشبوئے وصال
کھل گیا پھر کوئی در بند پذیرائی کا

میں نے پوشیدہ بھی کر رکھا ہے در پردۂ شعر
اور بھرم کھل بھی گیا ہے مری دانائی کا

یعنی اس بار بھی وہ خاک اڑی ہے کہ مجھے
ایک کھٹکا سا لگا رہتا ہے رسوائی کا

شاعری کام ہے میرا سو میں کہتا ہوں غزل
یہ عبث شوق نہیں قافیہ پیمائی کا