EN हिंदी
تجھ سے مل کر اس قدر اپنوں سے بیگانے ہوئے | شیح شیری
tujhse mil kar is qadar apnon se begane hue

غزل

تجھ سے مل کر اس قدر اپنوں سے بیگانے ہوئے

خاطر غزنوی

;

تجھ سے مل کر اس قدر اپنوں سے بیگانے ہوئے
اب تو پہچانے نہیں جاتے ہیں پہچانے ہوئے

بت جنہیں ہم نے تراشا اور خدائی سونپ دی
آ گئے ہیں سامنے پتھر وہی تانے ہوئے

خلق کی تہمت سے چھوٹے سنگ طفلاں سے بچے
خوب تھے وہ لوگ جو خود اپنے دیوانے ہوئے

اس کو کیا کہئے کہ ہم ہر حال میں جلتے رہے
دوریوں میں چاند تھے قربت میں پروانے ہوئے

اپنی صورت میں بھی خاطرؔ ایک گونہ سحر تھا
آئنہ خانوں میں فرزانے بھی دیوانے ہوئے