EN हिंदी
تجھ سے مل کر دل میں رہ جاتی ہے ارمانوں کی بات | شیح شیری
tujhse mil kar dil mein rah jati hai armanon ki baat

غزل

تجھ سے مل کر دل میں رہ جاتی ہے ارمانوں کی بات

وامق جونپوری

;

تجھ سے مل کر دل میں رہ جاتی ہے ارمانوں کی بات
یاد رہتی ہے کسی ساحل پہ طوفانوں کی بات

وہ تو کہئے آج بھی زنجیر میں جھنکار ہے
ورنہ کس کو یاد رہ جاتی ہے دیوانوں کی بات

کیا نہ تھی تم کو خبر اے کج کلاہان بہار
بوئے گل کے ساتھ ہی پھیلے گی زندانوں کی بات

خیر ہو میرے جنوں کی کھل گئے صدہا گلاب
ورنہ کوئی پوچھتا ہی کیا بیابانوں کی بات

کیا کبھی ہوتی کسی کی تو مگر اے زندگی
زہر پی کر ہم نے رکھ لی تیرے دیوانوں کی بات

رشتۂ یاد بتاں ٹوٹا نہ ترک عشق سے
ہے حرم میں اب بھی زیر لب صنم خانوں کی بات

ہم نشیں اس کے لب و رخسار ہوں یا سیر گل
تذکرہ کوئی بھی ہو نکلے گی مے خانوں کی بات

بزم انجم ہو کہ بزم خاک یا بزم خیال
جس جگہ جاؤ سنائی دے گی انسانوں کی بات

ابن آدم خوشۂ گندم پہ ہے مائل بہ جنگ
یہ نہ ہے مسجد کا قصہ اور نہ بت خانوں کی بات

پھول سے بھی نرم تر وامقؔ کبھی اپنا کلام
اور کبھی تلوار ہم آشفتہ سامانوں کی بات