تجھ سے میں مجھ سے آشنا تم ہو
میں ہوں خوشبو مگر ہوا تم ہو
میں لکھاوٹ تمہارے ہاتھوں کی
میری تقدیر کا لکھا تم ہو
تم اگر سچ ہو، میں بھی جھوٹ نہیں
عکس میں، میرا آئنہ تم ہو
بے خودی نے مرا بھرم توڑا
میں سمجھتا رہا خدا تم ہو
میں ہوں مجرم، مرے ہو منصف تم
میں خطا ہوں، مری سزا تم ہو
سیپ کی آس بن کے چاہوں تمہیں
لائے جو موتی وہ گھٹا تم ہو
اپنی مجبوریوں کا رنج نہیں
بے وفا میں ہوں، با وفا تم ہو
روگ بن کر پڑا ہوا ہے کنولؔ
تم دوا ہو، مری دعا تم ہو

غزل
تجھ سے میں مجھ سے آشنا تم ہو
رمیش کنول