EN हिंदी
تجھ سے اک ہاتھ کیا ملا لیا ہے | شیح شیری
tujhse ek hath kya mila liya hai

غزل

تجھ سے اک ہاتھ کیا ملا لیا ہے

عمران عامی

;

تجھ سے اک ہاتھ کیا ملا لیا ہے
شہر نے واقعہ بنا لیا ہے

ہم تو ہم تھے کہ اس پری رو نے
آئنے کا بھی دل چرا لیا ہے

ورنہ یہ سیل آب لے جاتا
شہر کو آگ نے بچا لیا ہے

ایسی ناؤ میں کیا سفر کرنا
جس نے دریا کو دکھ سنا لیا ہے

کوزہ گر نے ہماری مٹی سے
کیا بنانا تھا کیا بنا لیا ہے

دیکھیے پہلے کون مرتا ہے
سانپ نے آدمی کو کھا لیا ہے

جانے والوں کو اب اجازت ہے
ہم نے اپنا دیا بجھا لیا ہے

جب کوئی بات ہی نہیں عامیؔ
آسماں سر پہ کیوں اٹھا لیا ہے