EN हिंदी
تجھ سے بچھڑ کے درد ترا ہم سفر رہا | شیح شیری
tujhse bichhaD ke dard tera ham-safar raha

غزل

تجھ سے بچھڑ کے درد ترا ہم سفر رہا

قیصر قلندر

;

تجھ سے بچھڑ کے درد ترا ہم سفر رہا
میں راہ آرزو میں اکیلا کبھی نہ تھا

یہ اور بات رات جواں تھی جواں رہی
ساقی اداسیوں کے مجھے جام دے گیا

بازار وقت سے کہاں جنس وفا گئی
تنہا ہے ماہ مصر کا جلتا ہوا دیا

تاریک تھی یہ رات مگر یاد کی کرن
آئی تو نور حسن کا دروازہ پھر کھلا

حائل ہوئے دلوں پہ یہ انجانے فاصلے
پہلے ہمارے درمیاں کوئی فاصلہ نہ تھا

ہاتھوں میں رات آس کی شمعیں لئے ہوئے
تاریکیوں میں تجھ کو پکارا ہے بارہا

اے جنت خیال نگاہ فسوں شعار
قیصرؔ کو اپنے گیسوؤں میں آج پھر چھپا