تجھ سے بچھڑ کے درد ترا ہم سفر رہا
میں راہ آرزو میں اکیلا کبھی نہ تھا
یہ اور بات رات جواں تھی جواں رہی
ساقی اداسیوں کے مجھے جام دے گیا
بازار وقت سے کہاں جنس وفا گئی
تنہا ہے ماہ مصر کا جلتا ہوا دیا
تاریک تھی یہ رات مگر یاد کی کرن
آئی تو نور حسن کا دروازہ پھر کھلا
حائل ہوئے دلوں پہ یہ انجانے فاصلے
پہلے ہمارے درمیاں کوئی فاصلہ نہ تھا
ہاتھوں میں رات آس کی شمعیں لئے ہوئے
تاریکیوں میں تجھ کو پکارا ہے بارہا
اے جنت خیال نگاہ فسوں شعار
قیصرؔ کو اپنے گیسوؤں میں آج پھر چھپا

غزل
تجھ سے بچھڑ کے درد ترا ہم سفر رہا
قیصر قلندر