EN हिंदी
تجھ سے اب درد کا رشتہ بھی نہیں چاہئے ہے | شیح شیری
tujhse ab dard ka rishta bhi nahin chahiye hai

غزل

تجھ سے اب درد کا رشتہ بھی نہیں چاہئے ہے

مقصود وفا

;

تجھ سے اب درد کا رشتہ بھی نہیں چاہئے ہے
جا مجھے تیری تمنا بھی نہیں چاہئے ہے

دیکھ کچھ بھی نہ سکوں میں کسی سائے کے سوا
روشنی اتنی زیادہ بھی نہیں چاہئے ہے

اک نظر تشنۂ نظارہ ہی رکھ لینی ہے
اک تماشے میں تماشا بھی نہیں چاہئے ہے

خیر و شر دونوں مجھے زخم دئیے جاتے ہیں
یہ برا کیا مجھے اچھا بھی نہیں چاہئے ہے

اب ذرا چاہئے تنہائی میں یکسوئی مجھے
اب کوئی چاہنے والا بھی نہیں چاہئے ہے

میں نے ہلکان کیا جس کی طلب میں خود کو
سچ تو یہ ہے کہ وہ دنیا بھی نہیں چاہئے ہے

روک مت مجھ کو فرستادۂ طغیانی ہوں
اس سفر میں ہوں کہ رستہ بھی نہیں چاہئے ہے

جینا مشکل تو بہت ہے تری اس دنیا میں
لیکن اس خواب کو مرنا بھی نہیں چاہئے ہے