تجھ میں تو ایک خوئے جفا اور ہو گئی
میں اور ہو گیا نہ وفا اور ہو گئی
گل کا کہیں نشاں ہے نہ بلبل کا ذکر ہے
دو روز میں چمن کی ہوا اور ہو گئی
آمد کی سن کے کھولی تھی بیمار غم نے آنکھ
تم آ گئے امید شفا اور ہو گئی
بنت عنب تو رندوں کو یوں ہی مباح تھی
زاہد نظر پڑا تو روا اور ہو گئی
شکل قبول ہو کے پھری آسمان سے
تاثیر ہو گئی تو دعا اور ہو گئی
یاد آ گئی جو کعبے میں آبرو کی اے وحیدؔ
اپنی نماز عشق ادا اور ہو گئی
غزل
تجھ میں تو ایک خوئے جفا اور ہو گئی
وحید الہ آبادی