EN हिंदी
تجھ کو خود اپنے ہی سائے پہ گماں گزرا ہے | شیح شیری
tujhko KHud apne hi sae pe guman guzra hai

غزل

تجھ کو خود اپنے ہی سائے پہ گماں گزرا ہے

محمد نبی خاں جمال سویدا

;

تجھ کو خود اپنے ہی سائے پہ گماں گزرا ہے
تیرا وحشی ترے کوچے سے کہاں گزرا ہے

جھلملانے لگے فانوس تری محفل کے
کوئی پروانہ مگر شعلہ بجاں گزرا ہے

نغمگی نالۂ ہجراں میں کہاں سے لاؤں
سوز دل ساز بہاراں سے کہاں گزرا ہے

پھول گلشن میں جگر چاک نظر آتے ہیں
سرو کے سائے پہ زنداں کا گماں گزرا ہے

غم کی جھنکار میں شامل تھی شکست دل بھی
میرے نالوں پہ تغزل کا گماں گزرا ہے

ٹمٹماتے ہوئے دیکھے ہیں ستاروں کے چراغ
کہکشاں سے ابھی انسان کہاں گزرا ہے