تجھ کو ہی سوچتا رہوں فرصت نہیں رہی
اور پھر وہ پہلے والی طبیعت نہیں رہی
تجھ سے بچھڑ کے زندہ رہا تو پتہ چلا
اب اس قدر بھی تیری ضرورت نہیں رہی
میں سرد ہو گیا ہوں کہ اب تیرے لمس میں
گزری رتوں کی آتشیں حدت نہیں رہی
آخر کو تیرے غم بھی مجھے راس آ گئے
شام فراق میں بھی وہ شدت نہیں رہی
مجھ کو پتہ چلا تو میں حیران رہ گیا
ہم ساتھ ہیں مگر وہ رفاقت نہیں رہی
وہ ہچکیوں سے روتا رہا اور میں چپ رہا
شاید یہ سچ ہے مجھ کو محبت نہیں رہی
غزل
تجھ کو ہی سوچتا رہوں فرصت نہیں رہی
سید انوار احمد