EN हिंदी
تجھ کو دیکھا تو یہ لگا ہے مجھے | شیح شیری
tujhko dekha to ye laga hai mujhe

غزل

تجھ کو دیکھا تو یہ لگا ہے مجھے

عمران حسین آزاد

;

تجھ کو دیکھا تو یہ لگا ہے مجھے
عشق صدیوں سے جانتا ہے مجھے

آشنا سڑکیں اجنبی چہرہ
شہر میں اور کیا دکھا ہے مجھے

لوگ قیمت مری لگاتے ہیں
کس جگہ تو نے رکھ دیا ہے مجھے

صبح رخصت کرے مکاں میرا
شام کو خود ہی ڈھونڈھتا ہے مجھے

رت جگو تم ہی کچھ بتاو اب
عشق تو ہے ہی اور کیا ہے مجھے

میں بھی کیا دوسروں کے جیسا ہوں
خود کو باہر سے دیکھنا ہے مجھے

بات سچ ہے مگر کہوں کیسے
تشنگی نے ڈبو دیا ہے مجھے

موج در موج مٹ رہا ہوں میں
کون ساحل پہ لکھ گیا ہے مجھے

کس لیے روز جاگ جاتا ہوں
کون ہے جس کا ڈر لگا ہے مجھے