EN हिंदी
توڑ لیں گے ہر اک شے سے رشتہ توڑ دینے کی نوبت تو آئے | شیح شیری
toD lenge har ek shai se rishta toD dene ki naubat to aae

غزل

توڑ لیں گے ہر اک شے سے رشتہ توڑ دینے کی نوبت تو آئے

ساحر لدھیانوی

;

توڑ لیں گے ہر اک شے سے رشتہ توڑ دینے کی نوبت تو آئے
ہم قیامت کے خود منتظر ہیں پر کسی دن قیامت تو آئے

ہم بھی سقراط ہیں عہد نو کے تشنہ لب ہی نہ مر جائیں یارو
زہر ہو یا مئے آتشیں ہو کوئی جام شہادت تو آئے

ایک تہذیب ہے دوستی کی ایک معیار ہے دشمنی کا
دوستوں نے مروت نہ سیکھی دشمنوں کو عداوت تو آئے

رند رستے میں آنکھیں بچھائیں جو کہے بن سنے مان جائیں
ناصح نیک طینت کسی شب سوئے کوئے ملامت تو آئے

علم و تہذیب تاریخ و منطق لوگ سوچیں گے ان مسئلوں پر
زندگی کے مشقت کدے میں کوئی عہد فراغت تو آئے

کانپ اٹھیں قصر شاہی کے گنبد تھرتھرائے زمیں معبدوں کی
کوچہ گردوں کی وحشت تو جاگے غم زدوں کو بغاوت تو آئے