توڑ کے ناتا ہم سجنوں سے پگ پگ وہ پچھتائے ہیں
جب جب ان سے آنکھ ملی ہے تب تب وہ شرمائے ہیں
روپ نگر کو چھوڑ کے جب سے آس نگر کو آئے ہیں
صحرا صحرا دھوپ کڑی ہے پیڑ نہ کوئی سائے ہیں
جنگل جنگل آگ لگی ہے دریا دریا پانی ہے
نگری نگری تھاہ نہیں ہے لوگ بہت گھبرائے ہیں
سچائی ہے امرت دھارا سچائی انمول سہارا
سچ کے رستے چل کے سب نے ٹھور ٹھکانے پائے ہیں
دولت تو ہے آنی جانی روپ نگر کی رام کہانی
دھن کے لوگ بھی دھرتی پر کب سکھ سے رہنے پائے ہیں
شیشہ جب بھی ٹوٹے گا جھنکار فضا میں گونجے گی
جب ہی کومل دیش دلارے پتھر سے ٹکرائے ہیں
جھوٹ کا ڈنکا بجتا تھا جس وقت جمیلؔ اس نگری میں
ہر رستے ہر موڑ پہ ہم نے سچ کے علم لہرائے ہیں

غزل
توڑ کے ناتا ہم سجنوں سے پگ پگ وہ پچھتائے ہیں
جمیل عظیم آبادی