EN हिंदी
تو شرافتوں کا مقام ہے تو صداقتوں کا دوام ہے | شیح شیری
to sharafaton ka maqam hai to sadaqaton ka dawam hai

غزل

تو شرافتوں کا مقام ہے تو صداقتوں کا دوام ہے

ناصر شہزاد

;

تو شرافتوں کا مقام ہے تو صداقتوں کا دوام ہے
جہاں فرق شاہ و گدا نہیں ترے دین کا وہ نظام ہے

جنہیں ترے نام کی چاہ ہے یہ زمین ان کی گواہ ہے
وہیں کربلا کا وہ دشت ہے وہیں قصر کوفہ و شام ہے

کہیں کنکروں کو زبان دے کہیں سچ کو حرف بیان دے
در حد حد انعام ہے سر قد قد الہام ہے

ترا روپ روح کے روبرو تری پریت پران میں مو بہ مو
تو کمال حسن کلام ہے تو مثال ماہ تمام ہے

تو نے خوف مرگ مٹا دیا تو نے حق کو جینا سکھا دیا
تو حسن حسین کا پیشوا تو علی ولی کا امام ہے

ترا بعد بعد حیات ہے تیرا قرب قرب نجات ہے
تو رتوں کا رنگ رواں دواں تو سموں کا سنگ مدام ہے

تلے تیغ کے وہ عبادتیں تری شان کی وہ شہادتیں
وہ حکایتیں وہ روایتیں ترے سارے گھر پہ سلام ہے

تو شعور زیست کا ترجماں کبھی جزو جاں کبھی لا مکاں
یہاں عرش فرق پہ جاوداں ترا نور ہے ترا نام ہے

سبھی حرف تیرے حریم ہیں سبھی عکس تیرے عظیم ہیں
سبھی سج سخن ترے واسطے سبھی بات تجھ پہ تمام ہے