EN हिंदी
تو پھر میں کیا اگر انفاس کے سب تار گم اس میں | شیح شیری
to phir main kya agar anfas ke sab tar gum usMein

غزل

تو پھر میں کیا اگر انفاس کے سب تار گم اس میں

ظفر گورکھپوری

;

تو پھر میں کیا اگر انفاس کے سب تار گم اس میں
مرے ہونے نہ ہونے کے سبھی آثار گم اس میں

مری آنکھوں میں اک موسم ہمیشہ سبز رہتا ہے
خدا جانے ہیں ایسے کون سے اشجار گم اس میں

ہزاروں سال چل کر بھی ابھی خود تک نہیں پہنچی
یہ دنیا کاش ہو جائے کبھی اک بار گم اس میں

وہ جیسا ابر بھیجے جو ہوا سر پر چلائے وہ
مرے دریا مرے صحرا مرے کہسار گم اس میں

نہیں معلوم آخر کس نے کس کو تھام رکھا ہے
وہ مجھ میں گم ہے اور میرے در و دیوار گم اس میں

ظفرؔ اس کے تھے ہم تو کب تلک اس سے الگ رہتے
ہوئے ہم ایک دن ہونا تھا آخر کار گم اس میں