EN हिंदी
تو مجھے ایک جھلک بھی نہیں دکھلانی کیا | شیح شیری
to mujhe ek jhalak bhi nahin dikhlani kya

غزل

تو مجھے ایک جھلک بھی نہیں دکھلانی کیا

فراز محمود فارز

;

تو مجھے ایک جھلک بھی نہیں دکھلانی کیا
صرف موسیٰ پہ عنایت تھی یہ فرمانی کیا

میں کسی شخص کے مرنے پہ بھی غمگین نہیں
خاک اگر خاک میں ملتی ہے تو حیرانی کیا

خط میں لکھتے ہو بہت دکھ ہے تمہیں ہجرت کا
یار جب جا ہی چکے ہو تو پشیمانی کیا

میری آنکھوں میں ذرا غور سے دیکھ اور بتا
ان سے بڑھ کر ہے بھلا دشت کی ویرانی کیا

نہ غم یار ہے مجھ کو نہ غم دوراں ہے
آخر اب زیست میں بھی اس قدر آسانی کیا

میری مٹی میں الگ شے ہے کوئی کوزہ گر
وقت تجسیم مری خاک نہیں چھانی کیا