EN हिंदी
تو مری زندگی بنو گی تم | شیح شیری
to meri zindagi banogi tum

غزل

تو مری زندگی بنو گی تم

عارف اشتیاق

;

تو مری زندگی بنو گی تم
مر گیا میں تو کیا رہو گی تم

نہیں عادت کوئی بھلی تم میں
مجھے ظاہر ہے کیوں گنو گی تم

وہ جو زہرہ ہے، ہے مری دیوی
جان جل جل کے جل مرو گی تم

کیا سلگتا ہوں کیا دہکتا ہوں
اب کہو! مجھ سے کب ملو گی تم

مری عادت ہے کاٹ کھانے کی
مرے بوسوں کو کیا سہو گی تم

میں جو ہوں میں ہوں سب نہیں ہوں میں
وہ جو وہ سب جنہیں پڑھو گی تم