EN हिंदी
تو کیا تڑپ نہ تھی اب کے مرے پکارے میں | شیح شیری
to kya taDap na thi ab ke mere pukare mein

غزل

تو کیا تڑپ نہ تھی اب کے مرے پکارے میں

شہرام سرمدی

;

تو کیا تڑپ نہ تھی اب کے مرے پکارے میں
وگرنہ وہ تو چلا آتا تھا اشارے میں

وہ بات اس کو بتانا بہت ضروری تھی
وہ بات کس لیے کہتا میں استعارے میں

مدام ہجر کدے میں وہ یاد روشن ہے
کہاں ہے اے دل ناکام تو خسارے میں

مرے علاوہ سبھی لوگ اب یہ مانتے ہیں
غلط نہیں تھی مری رائے اس کے بارے میں

فقیر ہے پہ کرامت کسی نے دیکھی نہیں
گزر بسر ہی کیا کرتا ہے گزارے میں