EN हिंदी
تو آخر ساز ہستی کیوں طرب آہنگ محفل تھا | شیح شیری
to aaKHir saz-e-hasti kyun tarab-ahang-e-mahfil tha

غزل

تو آخر ساز ہستی کیوں طرب آہنگ محفل تھا

ناطق گلاوٹھی

;

تو آخر ساز ہستی کیوں طرب آہنگ محفل تھا
نشاط آئین کیف بے دلی یا رب اگر دل تھا

بہ فیض بے خودی ایسے مقام شوق میں ہم تھے
جہاں کار حصول مدعا تحصیل حاصل تھا

مقام ہو سویدائے مجرد عالم حیرت
مری گم گشتگی سے اب یہ نقشہ ہے جہاں دل تھا

ہمیں کمبخت احساس خودی اس در پہ لے بیٹھا
ہم اٹھ جاتے تو وہ پردہ بھی اٹھ جاتا جو حائل تھا

کہاں ذوق تن آسانی میں آسانی میسر تھی
تلاش راحت منزل میں دل گم کردہ منزل تھا

شکایت سن کے آداب محبت کہہ دیا اس نے
مجھے کہہ سن کے چپ ہونا پڑا آخر کہ قائل تھا

زبان داغؔ و شان ذوقؔ کچھ اس میں نہیں ناطقؔ
ارے یہ کیا ہے تو تو ہم نوائے نوحؔ و سائلؔ تھا