EN हिंदी
تتلیاں جگنو سبھی ہوں گے مگر دیکھے گا کون | شیح شیری
titliyan jugnu sabhi honge magar dekhega kaun

غزل

تتلیاں جگنو سبھی ہوں گے مگر دیکھے گا کون

نوشی گیلانی

;

تتلیاں جگنو سبھی ہوں گے مگر دیکھے گا کون
ہم سجا بھی لیں اگر دیوار و در دیکھے گا کون

اب تو ہم ہیں جاگنے والے تری خاطر یہاں
ہم نہ ہوں گے تو ترے شام و سحر دیکھے گا کون

جس کی خاطر ہم سخن سچائی کے رستے چلے
جب وہی اس کو نہ دیکھے تو ہنر دیکھے گا کون

سب نے اپنی اپنی آنکھوں پر نقابیں ڈال لیں
جو لکھا ہے شہر کی دیوار پر دیکھے گا کون

بے ستارہ زندگی کے گھر میں اب بھی رات کو
اک کرن تیرے خیالوں کی مگر دیکھے گا کون