تشنگی بھی ہے یہی اور یہی پانی بھی
مار دیتی ہے محبت کی فراوانی بھی
اتنا کھل کر بھی مرے راز نہاں ہیں مجھ سے
سات پردوں کی طرح ہے مجھے عریانی بھی
چھوڑ کر تجھ کو تری یاد کو اپنانا ہے
اس لیے چہرے پہ رونق بھی ہے ویرانی بھی
عکس آئینے سے باہر پڑا رہ جاتا ہے
چھوڑ جاتی ہے کسی موڑ پہ حیرانی بھی
دل مرے دل غم دنیا سے نپٹ لے کہ ابھی
تجھے کرنی ہے نئے زخم کی مہمانی بھی
زندگی تجھ کو بسر کرنا بہت مشکل ہے
کر رہے ہیں کہ ملے گی کبھی آسانی بھی

غزل
تشنگی بھی ہے یہی اور یہی پانی بھی
ثناء اللہ ظہیر