تشنہ لب کہتے رہے سنتی رہی پیاسی رات
صبح تک چلتی رہی درد تہ جام کی بات
یہ ہوس پیشہ ہوس کار ہوس خو دنیا
خوب ہے جس میں بھٹکتی ہے گزر گاہ نجات
پڑتے ہی دل پہ کسی شوخ نظر کا پرتو
جگمگانے لگی دھڑکن تو سجے محسوسات
جگمگاتی ہے کرن درد کی دھڑکن دھڑکن
آپ کو پیش کروں پیار کی رنگیں سوغات
اک مسیحا کی نشانی ہے یہ ہنستا ہوا زخم
ہم کو درکار نہیں مرہم و درمان حیات
وقت ظالم ہے مٹا دیتا ہے شدادوں کو
آپ کا ظلم ہے کیا آپ کی کیا ہے اوقات
جام و آئینہ یہی دل تھا کسی دن جاویدؔ
اس نے توڑا ہے جسے سنگ دلی سے ہیہات
غزل
تشنہ لب کہتے رہے سنتی رہی پیاسی رات
جاوید وششٹ