تشنہ لب ہوں مدتوں سے دیکھیے
کب در مے خانۂ کوثر کھلے
طاقت پرواز ہی جب کھو چکی
پھر ہوا کیا گر ہوا میں پر کھلے
چاک کر سینہ کو پہلو چیر ڈال
یوں ہی کچھ حال دل مضطر کھلے
رات تلچھٹ تک نہ چھوڑی تب کہیں
راز ہائے بادہ و ساغر کھلے
لو وہ آ پہنچا جنوں کا قافلہ
پاؤں زخمی خاک منہ پر سر کھلے
ہوں جو کثرت ہی کے قائل ان پہ کیا
راز فتح سبط پیغمبر کھلے
رونمائی کے لیے لایا ہوں جاں
اب تو شاید چہرۂ انور کھلے
اب تو کشتی کے موافق ہے ہوا
ناخدا کیا دیر ہے لنگر کھلے
یہ نظر بندی تو نکلی رد سحر
دیدہ ہائے ہوش اب جا کر کھلے
اب کہیں ٹوٹا ہے باطل کا طلسم
حق کے عقدے اب کہیں ہم پر کھلے
اب ہوا ہے ماسوا کا پردہ فاش
معرفت کے اب کہیں دفتر کھلے
فیض سے تیرے ہی اے قید فرنگ
بال و پر نکلے قفس کے در کھلے
جیتے جی تو کچھ نہ دکھلایا مگر
مر کے جوہرؔ آپ کے جوہر کھلے
غزل
تشنہ لب ہوں مدتوں سے دیکھیے
محمد علی جوہرؔ