تری زمیں سے اٹھیں گے تو آسماں ہوں گے
ہم ایسے لوگ زمانے میں پھر کہاں ہوں گے
چلے گئے تو پکارے گی ہر صدا ہم کو
نہ جانے کتنی زبانوں سے ہم بیاں ہوں گے
لہو لہو کے سوا کچھ نہ دیکھ پاؤ گے
ہمارے نقش قدم اس قدر عیاں ہوں گے
سمیٹ لیجئے بھیگے ہوئے ہر اک پل کو
بکھر گئے جو یہ موتی تو رائیگاں ہوں گے
اچاٹ دل کا ٹھکانا کسی کو کیا معلوم
ہم اپنے آپ سے بچھڑے تو پھر کہاں ہوں گے
ہیں اپنی موج کے بہتے ہوئے سمندر ہم
تمام دشت جنوں میں رواں دواں ہوں گے
یہ بزم یار ہے قربان جائیے اس پر
سنا ہے اشکؔ یہاں دل سبھی جواں ہوں گے
غزل
تری زمیں سے اٹھیں گے تو آسماں ہوں گے
ابراہیم اشکؔ