EN हिंदी
تری وفا میں مرے انتظار میں کیا تھا | شیح شیری
teri wafa mein mere intizar mein kya tha

غزل

تری وفا میں مرے انتظار میں کیا تھا

مسعود حسین خاں

;

تری وفا میں مرے انتظار میں کیا تھا
خزاں کے درد میں زخم بہار میں کیا تھا

یہ سوچنا تھا نہ ہو جائیں اس قدر مجبور
یہ دیکھنا تھا ترے اختیار میں کیا تھا

لبوں نے پھول تراشے نظر نے برسائے
مگر وہ کاوش مژگان یار میں کیا تھا

ادھر خیال تھا رخسار و چشم و لب کا ادھر
خبر نہیں دل امیدوار میں کیا تھا

نظر کے کانٹے پہ تل کر سبک ہوئے نہ گراں
توازن نگہ نو بہار میں کیا تھا

نگہ میں رمز غزل لب پہ مقطع تمکیں
بیاں تو کیجیے اس اختصار میں کیا تھا

لبوں کو تم نے تو مسعودؔ سی لیا تھا مگر
تبسم نگہ راز دار میں کیا تھا