EN हिंदी
تری امید ترا انتظار جب سے ہے | شیح شیری
teri umid tera intizar jab se hai

غزل

تری امید ترا انتظار جب سے ہے

فیض احمد فیض

;

تری امید ترا انتظار جب سے ہے
نہ شب کو دن سے شکایت نہ دن کو شب سے ہے

کسی کا درد ہو کرتے ہیں تیرے نام رقم
گلہ ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے

ہوا ہے جب سے دل ناصبور بے قابو
کلام تجھ سے نظر کو بڑے ادب سے ہے

اگر شرر ہے تو بھڑکے جو پھول ہے تو کھلے
طرح طرح کی طلب تیرے رنگ لب سے ہے

کہاں گئے شب فرقت کے جاگنے والے
ستارۂ سحری ہم کلام کب سے ہے