تری ترچھی نظر کا تیر ہے مشکل سے نکلے گا
دل اس کے ساتھ نکلے گا اگر یہ دل سے نکلے گا
شب غم میں بھی میری سخت جانی کو نہ موت آئی
ترا کام اے اجل اب خنجر قاتل سے نکلے گا
نگاہ شوق میرا مدعا تو ان کو سمجھا دے
مرے منہ سے تو حرف آرزو مشکل سے نکلے گا
کہاں تک کچھ نہ کہیے اب تو نوبت جان تک پہنچی
تکلف بر طرف اے ضبط نالہ دل سے نکلے گا
تصور کیا ترا آیا قیامت آ گئی دل میں
کہ اب ہر ولولہ باہر مزار دل سے نکلے گا
نہ آئیں گے وہ تب بھی دل نکل ہی جائے گا فانیؔ
مگر مشکل سے نکلے گا بڑی مشکل سے نکلے گا
غزل
تری ترچھی نظر کا تیر ہے مشکل سے نکلے گا
فانی بدایونی