EN हिंदी
تری تھکی ہوئی آنکھوں میں خواب تھا کہ نہیں | شیح شیری
teri thaki hui aaankhon mein KHwab tha ki nahin

غزل

تری تھکی ہوئی آنکھوں میں خواب تھا کہ نہیں

شاہد کلیم

;

تری تھکی ہوئی آنکھوں میں خواب تھا کہ نہیں
مرے سوال کا کوئی جواب تھا کہ نہیں

اٹھا کے صرف ببولوں کے خار لے آئے
چمن چمن کہیں تازہ گلاب تھا کہ نہیں

بڑے سکوں سے رہے موم کے بدن والے
تمہارا شہر تہ آفتاب تھا کہ نہیں

ہر ایک شخص وہاں گن رہا تھا لہروں کو
گزرتے لمحوں کا کوئی حساب تھا کہ نہیں

سراب تشنہ لبی دھوپ آبلہ پائی
خیال پچھلے سفر کا عذاب تھا کہ نہیں

ہر ایک سمت اداسی کا رنگ تھا شاہدؔ
وہ جلوہ ساز کبھی بے حجاب تھا کہ نہیں