تری تلاش میں جو خود کو بھول آئے تھے
پتا وہ اپنا کبھی ڈھونڈنے نہ پائے تھے
کسے خبر تھی کہ پھولوں میں بھی ہنر ہے وہی
کس احتیاط سے کانٹوں سے بچ کے آئے تھے
وہ بے حسی کا تھا عالم ذرا خبر نہ ہوئی
کہ روشنی تھی سر رہ گزر کہ سائے تھے
کنارے دور بہت دور تھے تو مجبوراً
سمندروں میں ہی لوگوں نے گھر بسائے تھے
ہر ایک بوند کئی بجلیوں کی حامل تھی
شدید برکھا نے بستی کے گھر جلائے تھے
یہ کیسے بوجھ چلے آئے پھر سے پلکوں پر
کہ اک زمانے پر ہم آج مسکرائے تھے
غزل
تری تلاش میں جو خود کو بھول آئے تھے
پروین شیر