EN हिंदी
تری تلاش میں گزرے کئی زمانے مجھے | شیح شیری
teri talash mein guzre kai zamane mujhe

غزل

تری تلاش میں گزرے کئی زمانے مجھے

سلیم کاشیر

;

تری تلاش میں گزرے کئی زمانے مجھے
خدا ہی جانے تو جانے ہے یا نہ جانے مجھے

دھواں دھواں ہیں جہاں پر خیال کی راہیں
مثال گرد اڑایا تری ہوا نے مجھے

نہ اس طرح مجھے دیکھو کہ جیسے پتھر ہوں
جو ہو سکے تو پکاروں کسی بہانے مجھے

وہ بات بات پہ ہنسنا تری ادا ہی سہی
تمام عمر رلایا ہے اس ادا نے مجھے

لگا ہے جب بھی کوئی زخم مسکرایا ہوں
یہ تاب دی ہے ترے درد لا دوا نے مجھے

تصورات کے صحرا میں جل بجھا ہوں سلیمؔ
نہ چھاؤں بخشی کسی حسن گل ردا نے مجھے