تری نگاہ کی انیاں جگر میں سلیاں ہیں
نجانوں کون سے زہر آب بیچ پلیاں ہیں
اُدھر سیں تند نگاہیں ادھر دل نازک
کدھر کے تیر کی چوٹیں کدھر کوں چلیاں ہیں
خیال غنچہ دہن میں ز بسکہ جاری ہے
ہمارے اشک کی لڑ موتیے کی کلیاں ہیں
زبان حال سیں کہتا ہے ان کا نقش قدم
بہشت دیدہ و دل خوش قدوں کی گلیاں ہیں
نہ پوچھ سرو کا ان قمریوں کوں خاک نشیں
وو شعلہ قد کے دکھوں اے سراجؔ جلیاں ہیں
غزل
تری نگاہ کی انیاں جگر میں سلیاں ہیں
سراج اورنگ آبادی