EN हिंदी
تری نگاہ کی انیاں جگر میں سلیاں ہیں | شیح شیری
teri nigah ki aniyan jigar mein saliyan hain

غزل

تری نگاہ کی انیاں جگر میں سلیاں ہیں

سراج اورنگ آبادی

;

تری نگاہ کی انیاں جگر میں سلیاں ہیں
نجانوں کون سے زہر آب بیچ پلیاں ہیں

اُدھر سیں تند نگاہیں ادھر دل نازک
کدھر کے تیر کی چوٹیں کدھر کوں چلیاں ہیں

خیال غنچہ دہن میں ز بسکہ جاری ہے
ہمارے اشک کی لڑ موتیے کی کلیاں ہیں

زبان حال سیں کہتا ہے ان کا نقش قدم
بہشت دیدہ و دل خوش قدوں کی گلیاں ہیں

نہ پوچھ سرو کا ان قمریوں کوں خاک نشیں
وو شعلہ قد کے دکھوں اے سراجؔ جلیاں ہیں