تری نگاہ تلطف نے فیض عام کیا
خرد کے شہر کے سب وحشیوں کوں رام کیا
اگرچہ تیر پلک نے کیا تھا دل برما
ولے نگاہ کے خنجر نے خوب کام کیا
ترے سلام کے دھج دیکھ کر مرے دل نے
شتاب آ کہ مجھے رخصتی سلام کیا
نہ جانوں عشق کی بجلی کدھر سیں آئی ہے
کہ مجھ جگر کے کھلے کوں جلا تمام کیا
اسی کے ہاتھ میں ہے خاتم سلیمانی
نگین دل پہ جو نقش اس صنم کا نام کیا
مجھے نگاہ تغافل رقیب پر الطاف
ادائے مصلحت آمیز نے غلام کیا
اے آفتاب تری ظلمت جدائی میں
سراجؔ آہ سحر کوں چراغ شام کیا
غزل
تری نگاہ تلطف نے فیض عام کیا
سراج اورنگ آبادی