تری نظر سے زمانے بدلتے رہتے ہیں
یہ لوگ تیرے بہانے بدلتے رہتے ہیں
فضائے کنج چمن میں ہمیں تلاش نہ کر
مسافروں کے ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں
نفس نفس متغیر ہے داستان حیات
قدم قدم پہ فسانے بدلتے رہتے ہیں
کبھی جگر پہ کبھی دل پہ چوٹ پڑتی ہے
تری نظر کے نشانے بدلتے رہتے ہیں
لگی ہے سیفؔ نظر انقلاب دوراں پر
سنا تو ہے کہ زمانے بدلتے رہتے ہیں

غزل
تری نظر سے زمانے بدلتے رہتے ہیں
سیف الدین سیف