تری نظر کے اشاروں کو نیند آئی ہے
حیات بخش سہاروں کو نیند آئی ہے
ترے بغیر تیرے انتظار سے تھک کر
شب فراق کے ماروں کو نیند آئی ہے
سحر قریب ہے ارماں اداس دل غمگیں
فلک پہ چاند ستاروں کو نیند آئی ہے
ترے جمال سے تعبیر تھے جو الفت میں
اب ان حسین نظاروں کو نیند آئی ہے
ہر ایک موج ہے ساکت یم محبت کی
مرے بغیر کناروں کو نیند آئی ہے
چمن میں زحمت گلگشت آپ فرمائیں
یہ سن رہا ہوں بہاروں کو نیند آئی ہے
کہو یہ ساقی صہبا نواز سے قیصرؔ
پھر آج بادہ گساروں کو نیند آئی ہے
غزل
تری نظر کے اشاروں کو نیند آئی ہے
قیصر نظامی