تری جستجو تری آرزو مجھے کام تیرے ہی کام سے
تو ہی زندگی کا ہے مدعا مرا نام تیرے ہی نام سے
ترا حسن ہے مری زندگی ترا عشق ہے مری عاشقی
تری فکر ہے مری شاعری ترا ذکر میرے کلام سے
ترے حسن نے یہ غضب کیا کہ ہر اہل دل ہوا مبتلا
جسے دیکھا تیرا ہی صید تھا نہ کوئی بچا ترے دام سے
گئی آدھی رات گزر مگر نہ تو آئے خود نہ لی کچھ خبر
میں تڑپ رہا ہوں ادھر ادھر یوں ہی انتظار میں شام سے
مرے دل ربا مرے دل ربا نہ یہ لطف ہے نہ کوئی عطا
اگر آنا ہے تو پھر آ بھی جا نہ یوں جھانک روزن بام سے
یہ غلط ہے کفر ہے ساقیا مجھے تیرا ہی رہا آسرا
تو پلا پلا تو پلا پلا نہیں اجتناب حرام سے
میں وہ تشنہ لب ہوں کہ ساقیا ہے ازل سے خشک مرا گلا
نہ زباں کو مے کا ملا مزا نہ لب آشنا ہوئے جام سے
ترا سوز عشق ہے زندگی ترا جذب حسن ہے بے خودی
تجھے پا کے خوش ہے ترا ذکیؔ نہیں کام عیش دوام سے
غزل
تری جستجو تری آرزو مجھے کام تیرے ہی کام سے
ذکی کاکوروی