EN हिंदी
تری برق پاش نگاہ سے ترے حشر خیز خرام سے | شیح شیری
teri barq-pash-nigah se tere hashr-KHez-KHiram se

غزل

تری برق پاش نگاہ سے ترے حشر خیز خرام سے

مشیر جھنجھانوی

;

تری برق پاش نگاہ سے ترے حشر خیز خرام سے
بہ سکون قلب گزر گیا میں ہر ایک ایسے مقام سے

مری زندگی کے یہ مرحلے ہمہ اتقا ہمہ بندگی
مجھے کیف ان کی نظر سے ہے کوئی واسطہ نہیں جام سے

وہ لجا گئے وہ جھجھک گئے وہ ٹھہر گئے کسی سوچ میں
سر رہ کسی نے جو دفعتاً انہیں دی صدا مرے نام سے

میں ہوں شمع محفل جاوداں مری زندگی نہیں مختصر
میں چراغ راہ گزر نہیں جو بجھا بجھا سا ہو شام سے

وہ لحاظ‌ پیر مغاں نہیں وہ مذاق بادہ کشی کہاں
ہمیں پھر عطا ہو مئے کہن نئے دور میں نئے جام سے

ترا ذکر سن کے تڑپ اٹھا ترا نام لے کے میں رو دیا
مجھے ایک نسبت خاص ہے ترے ذکر سے ترے نام سے

نہ رہا مشیرؔ ہی تشنہ لب سر بزم ساقیٔ بے خبر
کوئی بادہ کش نہیں مطمئن ترے میکدے کے نظام سے