تری باتوں میں چکنائی بہت ہے
کہ کم ہے دودھ بالائی بہت ہے
پولس کیوں آپ منگوانے لگے ہیں
مجھے تو آپ کا بھائی بہت ہے
محبت کیوں محلے بھر سے کر لیں
ہمیں تو ایک ہمسائی بہت ہے
وہ محبوبہ سے بیوی بن نہ جائے
مری ماں کو پسند آئی بہت ہے
نشہ ٹوٹا نہیں ہے مار کھا کر
کہ ہم نے پی ہے کم کھائی بہت ہے
غزل
تری باتوں میں چکنائی بہت ہے
عزیز احمد