EN हिंदी
تری باتوں میں چکنائی بہت ہے | شیح شیری
teri baaton mein chiknai bahut hai

غزل

تری باتوں میں چکنائی بہت ہے

عزیز احمد

;

تری باتوں میں چکنائی بہت ہے
کہ کم ہے دودھ بالائی بہت ہے

پولس کیوں آپ منگوانے لگے ہیں
مجھے تو آپ کا بھائی بہت ہے

محبت کیوں محلے بھر سے کر لیں
ہمیں تو ایک ہمسائی بہت ہے

وہ محبوبہ سے بیوی بن نہ جائے
مری ماں کو پسند آئی بہت ہے

نشہ ٹوٹا نہیں ہے مار کھا کر
کہ ہم نے پی ہے کم کھائی بہت ہے