تری آشنائی سے تیری رضا تک
مری بات پہنچی ہے اب انتہا تک
وہ پہلی نظر جس سے گھائل ہوا تھا
وہ پہلی خطا تھی جو پہنچی خطا تک
تری شوخیوں نے بھی جرأت بڑھا دی
یوں ہی ہاتھ میرے نہ پہنچے ردا تک
کہاں تک تعاقب میں پھرتا رہا میں
نشاں تک زباں تک ادا تک لقا تک
وہ جادو ادائیں اداؤں میں جادو
یہ پہنچایں ہم کو فنا سے بقا تک
ابھی تک وہ ساز ستم بج رہا ہے
جو پہنچا تھا بھولے سے تیری صدا تک
غزل
تری آشنائی سے تیری رضا تک
اخلاق احمد آہن