EN हिंदी
ترے راستوں سے جبھی گزر نہیں کر رہا | شیح شیری
tere raston se jabhi guzar nahin kar raha

غزل

ترے راستوں سے جبھی گزر نہیں کر رہا

ظفر اقبال

;

ترے راستوں سے جبھی گزر نہیں کر رہا
کہ میں اپنی عمر ابھی بسر نہیں کر رہا

کوئی بات ہے جو ہے درمیاں میں رکی ہوئی
کوئی کام ہے جو میں رات بھر نہیں کر رہا

ہے کوئی خبر جو چھپائے بیٹھا ہوں خلق سے
کوئی خواب ہے جسے در بدر نہیں کر رہا

تری بات کوئی بھی مانتا نہیں شہر میں
تو مرا کہا بھی کہیں اثر نہیں کر رہا

کہیں میرے گرد و نواح میں کوئی شے نہیں
میں کسی طرف بھی ابھی نظر نہیں کر رہا

کوئی شاخ ہے جسے برگ و بار نہیں ملے
کوئی شام ہے جسے میں شجر نہیں کر رہا

کوئی اس پہ غور اگر کرے بھی تو کس لیے
یہ سخن میں آپ بھی سوچ کر نہیں کر رہا

ابھی میری اپنی سمجھ میں بھی نہیں آ رہی
میں جبھی تو بات کو مختصر نہیں کر رہا

یہ میں اپنے عیب جو کر رہا ہوں عیاں ظفرؔ
تو دراصل یہ بھی کوئی ہنر نہیں کر رہا