ترے قریب رہوں یا کہ میں سفر میں رہوں
یہ آرزو ہے ترے حلقۂ اثر میں رہوں
شفق شفق مجھے دیکھے نگاہ حسن شعور
نقیب مہر بنوں نغمۂ سحر میں رہوں
یقیں کی چھاؤں میں تجھ کو جو نیند آ جائے
میں تیرے خواب کی صورت تری نظر میں رہوں
جمال شاہد معنی پہ جب نکھار آئے
خیال حسن بنوں اور شعر تر میں رہوں
یہ چاہتا ہوں کہ میخانے تک رسائی ہو
اگر سفال بنوں دست کوزہ گر میں رہوں
کبھی پھروں میں بیابان دل میں سرگرداں
کبھی نگار کم آمیز کی نظر میں رہوں
بنائیں اہل نظر سرمۂ نظر مجھ کو
غبار بن کے اگر تیری رہ گزر میں رہوں
ترا جمال دل آرا رہے تصور میں
گلوں کی بزم کہ میں چاند کے نگر میں رہوں
دعائے نیم شبی وہ کرے مری خاطر
کچھ ایسا بن کے دل حسن عشوہ گر میں رہوں
مرے نصیب میں ہو تیرے نام کی سرخی
کہ جس کا تجھ سے تعلق ہو اس خبر میں رہوں
کسی کی بزم میں جانے سے فائدہ کیا ہے
مرے لیے یہی بہتر ہے اپنے گھر میں رہوں
بنوں میں تیرے لیے وجہ لطف لافانی
ضیائے عشق کی صورت دل و جگر میں رہوں
تری ہی سمت ہمیشہ ہو میرا قبلۂ دل
ہمیشہ محو ترے حسن معتبر میں رہوں
ظفرؔ یہ میرے لیے تو عذاب جاں ہوگا
خدا نہ کردہ کہ میں شہر بے ہنر میں رہوں

غزل
ترے قریب رہوں یا کہ میں سفر میں رہوں
ظفر انصاری ظفر