ترے قریب رہوں یا کہ دور جاؤں میں
ہے دل کا ایک ہی عالم تجھی کو چاہوں میں
میں جانتا ہوں وہ رکھتا ہے چاہتیں کتنی
مگر یہ بات اسے کس طرح بتاؤں میں
جو چپ رہا تو وہ سمجھے گا بد گمان مجھے
برا بھلا ہی سہی کچھ تو بول آؤں میں
پھر اس کے بعد تعلق میں فاصلے ہوں گے
مجھے سنبھال کے رکھنا بچھڑ نہ جاؤں میں
محبتوں کی پرکھ کا یہی تو رستہ ہے
تری تلاش میں نکلوں تجھے نہ پاؤں میں
غزل
ترے قریب رہوں یا کہ دور جاؤں میں
افتخار امام صدیقی