ترے قریب پہنچنے کے ڈھنگ آتے تھے
یہ خود فریب مگر راہ بھول جاتے تھے
ہمیں عزیز ہیں ان بستیوں کی دیواریں
کہ جن کے سائے بھی دیوار بنتے جاتے تھے
ستیز نقش وفا تھا تعلق یاراں
وہ زخمۂ رگ جاں چھیڑ چھیڑ جاتے تھے
وہ اور کون ترے قرب کو ترستا تھا
فریب خوردہ ہی تیرا فریب کھاتے تھے
چھپا کے رکھ دیا پھر آگہی کے شیشے کو
اس آئینے میں تو چہرے بگڑتے جاتے تھے
اب ایک عمر سے دکھ بھی کوئی نہیں دیتا
وہ لوگ کیا تھے جو آٹھوں پہر رلاتے تھے
وہ لوگ کیا ہوئے جو اونگھتی ہوئی شب میں
در فراق کی زنجیر سی ہلاتے تھے
غزل
ترے قریب پہنچنے کے ڈھنگ آتے تھے
کشور ناہید