EN हिंदी
ترے قریب پہنچنے کے ڈھنگ آتے تھے | شیح شیری
tere qarib pahunchne ke Dhang aate the

غزل

ترے قریب پہنچنے کے ڈھنگ آتے تھے

کشور ناہید

;

ترے قریب پہنچنے کے ڈھنگ آتے تھے
یہ خود فریب مگر راہ بھول جاتے تھے

ہمیں عزیز ہیں ان بستیوں کی دیواریں
کہ جن کے سائے بھی دیوار بنتے جاتے تھے

ستیز نقش وفا تھا تعلق یاراں
وہ زخمۂ رگ جاں چھیڑ چھیڑ جاتے تھے

وہ اور کون ترے قرب کو ترستا تھا
فریب خوردہ ہی تیرا فریب کھاتے تھے

چھپا کے رکھ دیا پھر آگہی کے شیشے کو
اس آئینے میں تو چہرے بگڑتے جاتے تھے

اب ایک عمر سے دکھ بھی کوئی نہیں دیتا
وہ لوگ کیا تھے جو آٹھوں پہر رلاتے تھے

وہ لوگ کیا ہوئے جو اونگھتی ہوئی شب میں
در فراق کی زنجیر سی ہلاتے تھے