EN हिंदी
ترے مریض کو اے جاں شفا سے کیا مطلب | شیح شیری
tere mariz ko ai jaan shifa se kya matlab

غزل

ترے مریض کو اے جاں شفا سے کیا مطلب

نظیر اکبرآبادی

;

ترے مریض کو اے جاں شفا سے کیا مطلب
وہ خوش ہے درد میں اس کو دوا سے کیا مطلب

فقط جو ذات کے ہیں دل سے چاہنے والے
انہیں کرشمہ و ناز و ادا سے کیا مطلب

نہال تازہ رہیں نامیہ کے منت کش
درخت خشک کو نشو و نما سے کیا مطلب

مراد و مقصد و مطلب ہیں سب ہوس کے ساتھ
ہوس ہی مر گئی پھر مدعا سے کیا مطلب

مجھے وہ پوچھے تو اس کا ہی لطف ہے ورنہ
وہ بادشاہ ہے اسے مجھ گدا سے کیا مطلب

جو اپنے یار کے جور و جفا میں ہیں مسرور
انہیں پھر اور کے مہر و وفا سے کیا مطلب

رضائے دوست جنہیں چاہئے بہر صورت
نظیرؔ پھر انہیں اپنی رضا سے کیا مطلب