EN हिंदी
ترے ماتھے پہ جب تک بل رہا ہے | شیح شیری
tere mathe pe jab tak bal raha hai

غزل

ترے ماتھے پہ جب تک بل رہا ہے

حبیب جالب

;

ترے ماتھے پہ جب تک بل رہا ہے
اجالا آنکھ سے اوجھل رہا ہے

سماتے کیا نظر میں چاند تارے
تصور میں ترا آنچل رہا ہے

تری شان تغافل کو خبر کیا
کوئی تیرے لیے بے کل رہا ہے

شکایت ہے غم دوراں کو مجھ سے
کہ دل میں کیوں ترا غم پل رہا ہے

تعجب ہے ستم کی آندھیوں میں
چراغ دل ابھی تک جل رہا ہے

لہو روئیں گی مغرب کی فضائیں
بڑی تیزی سے سورج ڈھل رہا ہے

زمانہ تھک گیا جالبؔ ہی تنہا
وفا کے راستے پر چل رہا ہے