ترے لبوں پہ اگر سرخی وفا ہی نہیں
تو یہ بناؤ یہ سج دھج تجھے روا ہی نہیں
میں تیری روح کی پتی کی طرح کانپ گیا
ہوائے صبح سبک گام کو پتا ہی نہیں
کسی امید کے پھولوں بھرے شبستاں سے
جو آنکھ مل کے اٹھا ہوں تو وہ ہوا ہی نہیں
فراز شام سے گرتا رہا فسانۂ شب
گدائے گوہر گفتار نے سنا ہی نہیں
چمک رہا ہے مری زندگی کا ہر لمحہ
میں کیا کروں کہ مری آنکھ میں ضیا ہی نہیں

غزل
ترے لبوں پہ اگر سرخی وفا ہی نہیں
ظفر اقبال