EN हिंदी
ترے لبوں پہ اگر سرخی وفا ہی نہیں | شیح شیری
tere labon pe agar surKHi-e-wafa hi nahin

غزل

ترے لبوں پہ اگر سرخی وفا ہی نہیں

ظفر اقبال

;

ترے لبوں پہ اگر سرخی وفا ہی نہیں
تو یہ بناؤ یہ سج دھج تجھے روا ہی نہیں

میں تیری روح کی پتی کی طرح کانپ گیا
ہوائے صبح سبک گام کو پتا ہی نہیں

کسی امید کے پھولوں بھرے شبستاں سے
جو آنکھ مل کے اٹھا ہوں تو وہ ہوا ہی نہیں

فراز شام سے گرتا رہا فسانۂ شب
گدائے گوہر گفتار نے سنا ہی نہیں

چمک رہا ہے مری زندگی کا ہر لمحہ
میں کیا کروں کہ مری آنکھ میں ضیا ہی نہیں