ترے خیال سے پھر آنکھ میری پر نم ہے
کہ غم زیادہ ہے اور حوصلہ مرا کم ہے
بقا کے واسطے صدیوں سے جنگ جاری ہے
فنا کے شور شرابے سے ناک میں دم ہے
نہیں تو کب کا مکمل میں ہو چکا ہوتا
جسے میں اپنا سمجھتا ہوں اس میں کچھ کم ہے
عجیب دور ہے یہ دور میری مشکل کا
سوال میں ہے نہ کوئی جواب میں دم ہے
میں جس کو ڈھونڈ رہا ہوں کئی زمانوں سے
مجھے ہو علم کہ وہ میری ذات میں ضم ہے
نماز پڑھتا ہوں اور اس کو یاد کرتا ہوں
مرے خیال میں اک پانچواں بھی موسم ہے
غزل
ترے خیال سے پھر آنکھ میری پر نم ہے
ارشد لطیف