EN हिंदी
ترے خیال سے پھر آنکھ میری پر نم ہے | شیح شیری
tere KHayal se phir aankh meri pur-nam hai

غزل

ترے خیال سے پھر آنکھ میری پر نم ہے

ارشد لطیف

;

ترے خیال سے پھر آنکھ میری پر نم ہے
کہ غم زیادہ ہے اور حوصلہ مرا کم ہے

بقا کے واسطے صدیوں سے جنگ جاری ہے
فنا کے شور شرابے سے ناک میں دم ہے

نہیں تو کب کا مکمل میں ہو چکا ہوتا
جسے میں اپنا سمجھتا ہوں اس میں کچھ کم ہے

عجیب دور ہے یہ دور میری مشکل کا
سوال میں ہے نہ کوئی جواب میں دم ہے

میں جس کو ڈھونڈ رہا ہوں کئی زمانوں سے
مجھے ہو علم کہ وہ میری ذات میں ضم ہے

نماز پڑھتا ہوں اور اس کو یاد کرتا ہوں
مرے خیال میں اک پانچواں بھی موسم ہے