ترے خیال کے جب شامیانے لگتے ہیں
سخن کے پاؤں مرے لڑکھڑانے لگتے ہیں
جو ایک دست بریدہ سواد شوق میں ہے
علم اٹھائے ہوئے اس کے شانے لگتے ہیں
میں دشت ہو کی طرف جب اڑان بھرتا ہوں
تری صدا کے شجر پھر بلانے لگتے ہیں
خبر بھی ہے تجھے اس دفتر محبت کو
جلانے جلنے میں کیا کیا زمانے لگتے ہیں
یہ گرد ہے مری آنکھوں میں کن زمانوں کی
نئے لباس بھی اب تو پرانے لگتے ہیں
تمہارے میوۂ لب کو نگہ سے چھوتے ہی
عجیب لذت نایاب پانے لگتے ہیں
جو سنسناتا ہے کوفہ و نینوی کا خیال
گلوئے جاں کی طرف تیر آنے لگتے ہیں
غزل
ترے خیال کے جب شامیانے لگتے ہیں
امیر حمزہ ثاقب